Tuesday, 1 August 2023

زمیں پر آسماں ٹھہرا ہوا ہے

 زمیں پر آسماں ٹھہرا ہوا ہے

یہ اس کا پاسباں ٹھہرا ہوا ہے

رکا ہوں چلتے چلتے اس لیے میں

ہوا ٹھہری، سماں ٹھہرا ہوا ہے

جو کہنا چاہتا ہوں، کہہ نہ پاؤں

نہ جانے کیوں بیاں ٹھہرا ہوا ہے

کوئی واقف ہے میری زندگی سے

مِرا ہر دکھ عیاں ٹھہرا ہوا ہے

عجب اک موڑ پہ پہنچا ہوا ہوں اب میں

جہاں پر اک جہاں ٹھہرا ہوا ہے

تیری دہلیز ہے جس پہ کہ جاناں

گروہِ عاشقاں ٹھہرا ہوا ہے

سفینے سرخرو عادل ہیں سارے

سمندر رازداں ٹھہرا ہوا ہے


عادل صدیقی

شبیر صدیقی

No comments:

Post a Comment