زمیں پر آسماں ٹھہرا ہوا ہے
یہ اس کا پاسباں ٹھہرا ہوا ہے
رکا ہوں چلتے چلتے اس لیے میں
ہوا ٹھہری، سماں ٹھہرا ہوا ہے
جو کہنا چاہتا ہوں، کہہ نہ پاؤں
نہ جانے کیوں بیاں ٹھہرا ہوا ہے
کوئی واقف ہے میری زندگی سے
مِرا ہر دکھ عیاں ٹھہرا ہوا ہے
عجب اک موڑ پہ پہنچا ہوا ہوں اب میں
جہاں پر اک جہاں ٹھہرا ہوا ہے
تیری دہلیز ہے جس پہ کہ جاناں
گروہِ عاشقاں ٹھہرا ہوا ہے
سفینے سرخرو عادل ہیں سارے
سمندر رازداں ٹھہرا ہوا ہے
عادل صدیقی
شبیر صدیقی
No comments:
Post a Comment