Tuesday, 8 August 2023

انا کے جال سے جو قید ذات سے نکلا

 انا کے جال سے، جو قیدِ ذات سے نکلا

وہ مثلِ نُورِ سحر، شب کی گھات سے نکلا

ہر ایک قطرہ بنا، حرفِ وصفِ کاکُلِ یار

نہا کے خوب قلم جب دوات سے نکلا

وہ معتبر نہ رہا چشمِ اہلِ اُلفت میں

جو اُس کے دائرۂ التفات سے نکلا

اذانِ عشق سُنائی جو قیس نے مجھ کو

دل اپنا فکرِ حیات و ممات سے نکلا

لہو کے بُرجِ وفا میں جو ہو گیا تھا غروب

وہ ماہتابؑ ، کنارِ فُرات سے نکلا

غزل میں، میں نے کِیا جب ندیمِ دوست کا ذکر

قسم خدا کی، سُخن مُشکلات سے نکلا

تھا جس کو عِلم وَ یَبقی فقط ہے ذاتِ خدا

وہ جلد کارگہِ بے ثبات سے نکلا

غمِ فراق، غمِ روزگار اور غمِ یار

دل اپنا بچ کے بہت حادثات سے نکلا

عجب ہے طائرِ توقیرِ نفسِ انساں بھی

لگے نہ ہاتھ جو اک بار ہاتھ سے نکلا

وہ گھر سے نکلا ہے یا کاروان خوشبو کا؟

وسیم! پنکھڑیوں کی قنات سے نکلا؟


وسیم عباس حیدری

No comments:

Post a Comment