پاس رہ کر بھی دور ہو جانا
مثل اک کوہ نور ہو جانا
ایک شیریں زباں کو دیکھا ہے
لذت آمچور ہو جانا
حسن مغرور سامنے ہو اگر
کون سوچے گا دور ہو جانا
ہم نے دیکھا ہے بیٹھے بیٹھے ہی
جسم کا چور چور ہو جانا
اے کرونا یہ مرکز دل ہے
جانب کانپور ہو جانا
تم ہمارے نہ ہو سکے تو کیا
تم کسی کے ضرور ہو جانا
گھر کے اندر تو عافیت ہے مگر
ہائے دل میں فتور ہو جانا
بندگی میں سرور لایا ہے
وائرس کا ظہور ہو جانا
شمیم قاسمی
No comments:
Post a Comment