Tuesday, 8 August 2023

موجۂ درد کو اتنا تو اچھالا جائے

موجۂ درد کو اتنا تو اُچھالا جائے

جس طرف ابر چلے، میرا حوالہ جائے

دل کے صحرا میں تہی چشم کھڑا سوچتا ھوں

کس طرح اتنی تمناؤں کو پالا جائے

میرا تو سات زمانوں میں کہیں ذکر نہیں

کِن زمینوں میں مجھے ڈھونڈنے والا جائے

تُو جو آئے تو اسے مل کے سمیٹیں دونوں

مجھ اکیلے سے کہاں ہجر سنبھالا جائے

بعد میں میرے تہی ذھن پہ ہو طعنہ زنی

پہلے اجداد کے وِرثے کو سنبھالا جائے

خالقِ چشم پہ لازم تھا دکھائی دینا

کیوں نہ پھر اس کو کسی شکل میں ڈھالا جائے

اس کی تعبیر میں لے آؤں گا مہر و مہ سے

کچھ قرینے سے تو یہ خواب اُجالا جائے

یہ نہ ہو آتشِ انکار کے شعلے نکلیں

میری تشکیک کو دوزخ میں نہ ڈالا جائے

آئینہ ظٌلِ الٰہی کو دِکھایا اس نے

ایسے گُستاخ کو دُنیا سے نِکالا جائے


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment