Tuesday 8 August 2023

وہ یہیں ہے شہر میں ٹھہرا ہوا

 وہ یہیں ہے شہر میں ٹھہرا ہُوا

زخم دل کا اور بھی گہرا ہوا

میں وفا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا

ایک آنسو جو بہت رُسوا ہوا

مُدتیں گُزریں اُسے بچھڑے ہوئے

لمحہ لمحہ پھر بھی ہے چونکا ہوا

اجنبی تُو بھی پرائے دیس میں

میں بھی اپنے شہر میں بھٹکا ہوا

پیار بھی ہوتا ہے کیا مجبور کا

ایک وعدہ ریت پہ لکھا ہوا

پر جھٹک کے ہو گیا ہے تازہ دم 

اک پرندہ قید سے چُھوٹا ہوا

میں سمندر کی طرح خاموش ہوں

وہ مگر دریا ہے اک دہکا ہوا

میں کسی مُفلس کے در کی دُھول ہوں

وہ بھی اک پتھر بہت پُوجا ہوا

اک تِری دیوانگی منصور کیا

اس گلی میں ہر کوئی رُسوا ہوا 


منصور اعجاز

No comments:

Post a Comment