Sunday, 6 August 2023

لوٹ آئے سبھی کردار کہانی کی طرف

 حرف لفظوں کی طرف لفظ معانی کی طرف

لوٹ آئے سبھی کردار کہانی کی طرف

ہوش کھو بیٹھا تھا میں زردئ جاں سے اور پھر

اک ہوا آئی اڑا لے گئی پانی کی طرف

پہلے مصرعے میں تجھے سوچ لیا ہو جس نے

جانا پڑتا ہے اسے مصرعۂ ثانی کی طرف

دل میں اک شخص کی امید کا مرنا تھا کہ بس

دھڑکنیں کھنچنے لگیں مرثیہ خوانی کی طرف

چشم ویراں کو بہرحال خوشی ہے اس کی

خواب راغب تو ہوئے نقل مکانی کی طرف

جب فضا اس کے بدن رنگ کی ہو جائے گی

غور سے دیکھیں گے ہم اپنی جوانی کی طرف

ہم کو اک عمر ہوئی اپنی طرف آ بھی چکے

اور دل ہے کہ اسی دشمن جانی کی طرف

اس سے کہنا کہ دھواں دیکھنے لائق ہو گا

آگ پہنے ہوئے جاؤں گا میں پانی کی طرف

دل وہ دریا ہے مرے سینۂ خالی میں کہ اب

دھیان جاتا ہی نہیں جس کی روانی کی طرف

اٹھنے لگتی ہے مِرے جسم سے اک بُوئے فراق

رات دیکھوں جو کبھی رات کی رانی کی طرف


ابھیشیک شکلا

No comments:

Post a Comment