حرف لفظوں کی طرف لفظ معانی کی طرف
لوٹ آئے سبھی کردار کہانی کی طرف
ہوش کھو بیٹھا تھا میں زردئ جاں سے اور پھر
اک ہوا آئی اڑا لے گئی پانی کی طرف
پہلے مصرعے میں تجھے سوچ لیا ہو جس نے
جانا پڑتا ہے اسے مصرعۂ ثانی کی طرف
دل میں اک شخص کی امید کا مرنا تھا کہ بس
دھڑکنیں کھنچنے لگیں مرثیہ خوانی کی طرف
چشم ویراں کو بہرحال خوشی ہے اس کی
خواب راغب تو ہوئے نقل مکانی کی طرف
جب فضا اس کے بدن رنگ کی ہو جائے گی
غور سے دیکھیں گے ہم اپنی جوانی کی طرف
ہم کو اک عمر ہوئی اپنی طرف آ بھی چکے
اور دل ہے کہ اسی دشمن جانی کی طرف
اس سے کہنا کہ دھواں دیکھنے لائق ہو گا
آگ پہنے ہوئے جاؤں گا میں پانی کی طرف
دل وہ دریا ہے مرے سینۂ خالی میں کہ اب
دھیان جاتا ہی نہیں جس کی روانی کی طرف
اٹھنے لگتی ہے مِرے جسم سے اک بُوئے فراق
رات دیکھوں جو کبھی رات کی رانی کی طرف
ابھیشیک شکلا
No comments:
Post a Comment