Monday, 7 August 2023

گلی پڑی تھی کہیں راستہ پڑا ہوا تھا

 گلی پڑی تھی کہیں راستہ پڑا ہوا تھا

دلوں کے بیچ عجب فاصلہ پڑا ہوا تھا

اُلجھ رہا تھا بھنور جب ہماری ناؤ کے ساتھ

بہت قریب کوئی آسرا پڑا ہوا تھا

سُلگتی شام تھی صحرا تھا جلتے خیمے تھے

قریب خیموں کے دستِ دُعا پڑا ہوا تھا

درِ نصیب پہ پہنچا تو بد نصیبی سے

مِرے نصیب کا اک حادثہ پڑا ہوا تھا

مِلا نہیں ہے اُسے ڈھونڈ ڈھونڈ تھک گیا میں

مِری دراز میں جو قہقہہ پڑا ہوا تھا

میں اپنا چہرہ کہیں رکھ کے بُھول آیا مگر

مری تلاش میں اک آئینہ پڑا ہوا تھا

بُجھے ستارے تھے صحرا تھا اور وحشت تھی

کنارِ آب کے جلتا دِیا پڑا ہوا تھا

نجانے خواب میں کس نے چُھوا مجھے حیدر

کُھلی جب آنکھ تو میں گُل نما پڑا ہوا تھا


علیم حیدر

No comments:

Post a Comment