Sunday, 6 August 2023

اے میرے باپ مجھے اجازت دو

 میرے باپ مجھے اجازت دو


اے میرے باپ! مجھے اجازت دو

مجھے اجازت دو کہ میں

تمہارا کوئی پوتا نہ پیدا کروں

تاکہ جو میں نے تمہارے ساتھ کیا

وہ میرے ساتھ نہ کر سکے

میرے باپ نے چاند سے نظر ہٹا کر

خوشی سے مٹی کو گلے لگایا

بارش سے خالی آسمان کی خاطر نماز پڑھی 

اور مجھے سفر کرنے سے منع کیا

بجلی ان تمام وادیوں کو چمکا رہی ہے جہاں

میرے باپ نے زمانوں پرانے پتھروں کو پال کر

نہ جانے کتنے پودوں کو جنم دیا

اس کی جلد شبنم سے بھری رہتی تھی

اور اس کے ہاتھوں پر پتیاں  کھلا کرتیں 

اور افق سارا اس کے روبرو غم کا گیت گاتا رہتا 

میرے باپ نے ایک بار 

جب چٹان پر فجر کی نماز پڑھی تو مجھے کہا

سمندر اور سفر سے دور رہنا

جس دن  آقا اپنے غلام کو کوڑے مارنے لگا

میں نے کہا؛ اے لوگو! کیا ہم گستاخ ہیں؟

تو، میرے باپ نے اپنا بازو بلند کر کے

مجھے اس سزا کے دوران ایک روایت کہہ سنائی؛

نبی ایوبؑ درد کے خالق کے بندے تھے

اور اس کا ان زخموں پر شکر ادا کرتے تھے

جو آج مجھے لگ رہے تھے کسی میت اور بت کو نہیں

تو زخم اور درد کی بات کرنا چھوڑو

اور جو درد تمہیں نہیں پہنچا اس پر

میرے ساتھ نادم ہو جاؤ

افق سے گزر کر اک ستارہ مسلسل نیچے آ رہا تھا

اور میری قمیض دھوپ اور ہوا کے درمیان لٹکی تھی 

میری آنکھیں اپنے باپ کو خاک کے خالی نقوش میں 

تلاش کر رہی تھیں جہاں وہ درخت لگاتا تھا

لیکن اب میں اپنا درخت کہاں لگاؤں

میں کہاں کاشت کروں

کسی کو یاد نہیں کہ وہ اپنے باپ سے پہلی بار کب ملا

اور نہ کسی کو یاد ہے کہ وہ اپنی ماں کے پاس کب آیا

جب میں اپنے دل سے یہ سوال کرتا ہوں

کہ پہلی بار میں اپنے باپ سے کب ملا

کہ مجھے تو بس صبح و شام کا 

اک طویل اختلاط ہی یاد ہے

تو وہ مجھ سے رخ پھیر کر 

زمین کی زبان بولنے لگتا ہے کہ 

میرا باپ اتنا میرا باپ نہیں تھا

جتنا ان پھولوں اور پودوں کا باپ تھا

مگر میرے باپ نے ایک بار مجھے کہا تھا

جس کا وطن نہ ہو اس کے لیے اس دھرتی پر 

دفن ہونے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی

اور مجھے سفر کرنے سے منع کیا


محمود درویش 

No comments:

Post a Comment