تمہاری جانب بھی کیا یونہی بدحواس آتی ہے تم سناؤ
یہاں کہیں سے ہوا بھی آئے اداس آتی ہے تم سناؤ
تمہیں بتایا تھا پیڑ پودوں کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے
اور اب درختوں کے خشک پتوں سے باس آتی ہے تم سناؤ
میں کیا سناؤں کہ میرے جیسی سدا کی بنجر زمین پر بھی
تمہارے جیسوں کے بول پڑنے سے گھاس آتی ہے تم سناؤ
میری سماعت کے حق میں اب بس یہ دو ہی الفاظ رہ گئے ہیں
وہ اتنا کہتی ہے جب کبھی میرے پاس آتی ہے؛ تم سناؤ
میرا تو اس بار پہلے والے سے ڈھیر نقصان ہو گیا ہے
تمہیں تو ہر بار رُت جدائی کی راس آتی ہے تم سناؤ
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment