ہر بات پر نہ یوں ہمیں غصہ کریں حضور
کچھ بد مزاج لوگ ہیں دیکھا کریں حضور
اک دن ہوا کے خوف سے کہنے لگا چراغ
میرا یوں شاعری میں نہ چرچا کریں حضور
جتنا جنوں ہے جیب میں باہر نکالیے
بازار ہے یہ عشق کا خرچہ کریں حضور
اب سیکھ جائیں آپ ان آنکھوں کی بھی زباں
پلکیں جھکاؤں جب بھی تو سمجھا کریں حضور
اتنا حسین پھول، اور اس پر یہ برہمی
ہم سے خطا ہوئی ہے تو شکوہ کریں حضور
جھگڑا ہوا ہے آج ستاروں کا چاند سے
بولا ہے کتنی بار نہ چمکا کریں حضور
نوید ملک
No comments:
Post a Comment