یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اک زخم ہے جو دل کی حفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کسی طرح
یہ کاروانِ شوق، مُسافت میں اب بھی ہے
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب بھی ہے
سب دوست مصلحت کی دُکانوں پہ بِک گئے
دشمن تو پُرخلوص عداوت میں اب بھی ہے
آثارِ حشر سارے نمودار ہو چکے
کہتے ہیں لوگ دیر قیامت میں اب بھی ہے
مجبوریوں نے برف بنا دی انا، مگر
شعلہ سا ایک اپنی طبیعت میں اب بھی ہے
جس نے کیا تھا جرم وہ کب کا بَری ہوا
جو بے قصور ہے، وہ عدالت میں اب بھی ہے
برسوں ہوئے جو زخمِ شناسائی سے ملا
وہ درد میری، اس کی شراکت میں اب بھی ہے
باقی احمد پوری
No comments:
Post a Comment