جب تک رشتہ جام سبو کا باقی ہے
شہر میں امکاں ہاؤ ہو کا باقی ہے
جلتے زخموں سے آوازیں آتی ہیں
شاید کوئی کام رفو کا باقی ہے
پتے نے ٹہنی سے آخر پوچھ لیا
کیا کوئی جھونکا اور بھی لُو کا باقی ہے
رفتہ رفتہ سب ہی ہم کو چھوڑ گئے
ایک تعلق اس خوش خُو کا باقی ہے
نخل نے ٹھنڈی چھاؤں دی پھل پھول دئیے
پھر بھی اس پر قرض نمو کا باقی ہے
لگتا ہے یہ لشکر کی تیاری سے
جیسے دم خم اور عدو کا باقی ہے
ہاتھ اور خنجر تو دھو ڈالے قاتل نے
دامن پر اک داغ لہو کا باقی ہے
آنے والے ہیں احباب جنازے پر
حیدر بس اک کام وضو کا باقی ہے
علیم حیدر
No comments:
Post a Comment