Tuesday, 8 August 2023

جب تک رشتہ جام سبو کا باقی ہے

 جب تک رشتہ جام سبو کا باقی ہے

شہر میں امکاں ہاؤ ہو کا باقی ہے

جلتے زخموں سے آوازیں آتی ہیں

شاید کوئی کام رفو کا باقی ہے

پتے نے ٹہنی سے آخر پوچھ لیا

کیا کوئی جھونکا اور بھی لُو کا باقی ہے

رفتہ رفتہ سب ہی ہم کو چھوڑ گئے

ایک تعلق اس خوش خُو کا باقی ہے

نخل نے ٹھنڈی چھاؤں دی پھل پھول دئیے

پھر بھی اس پر قرض نمو کا باقی ہے

لگتا ہے یہ لشکر کی تیاری سے

جیسے دم خم اور عدو کا باقی ہے

ہاتھ اور خنجر تو دھو ڈالے قاتل نے

دامن پر اک داغ لہو کا باقی ہے

آنے والے ہیں احباب جنازے پر

حیدر بس اک کام وضو کا باقی ہے


علیم حیدر

No comments:

Post a Comment