غم جو پیمانۂ دل بھر کے اچھل جاتے ہیں
سرد آہوں، کبھی شعروں میں ڈھل جاتے ہیں
دستِ ساقی سے جو پیتے ہیں بہل جاتے ہیں
چشمِ ساقی سے جو پیتے ہیں سنبھل جاتے ہیں
کرنا اظہار ضروری ہے کسی بھی صورت
ورنہ ذہنوں میں خیالات بھی گُھل جاتے ہیں
لب پہ آتی ہیں شکایات, مگر کیا کیجے
سامنے آتے ہی جذبات پگھل جاتے ہیں
اس قدر لوگ ہیں مایوس نہ پوچھیں عرفان
موت کے منہ میں لیے صبر کا پھل جاتے ہیں
عرفان اللہ
No comments:
Post a Comment