سرائے دار کا اتنا کوئی اُدھار نہ تھا
مگر وہ خواب مجھے یوں بھی سازگار نہ تھا
مِری شعاع اندھیرے میں کام آئی مجھے
مِرا کسی کے چراغوں پہ انحصار نہ تھا
تمہارے واسطے وہ کام بھی کیے میں نے
وہ کام جن پہ مِرا کوئی اختیار نہ تھا
کسی بھی پھول کی خوشبو سدا نہیں ٹھہری
کوئی بھی زخم محبت میں پائیدار نہ تھا
ازل کے آئینہ خانے میں صرف تو تھا دوست
مجھ ایسے خانہ بدوشوں کا کچھ شمار نہ تھا
اسی نے دشت میں تلوار سونت لی مجھ پر
وہ جس سے بڑھ کے کسی پر بھی اعتبار نہ تھا
میں کس یقیں سے کنارے کو لوٹتا راشد
مِرا پڑاؤ کوئی خاص خوش گوار نہ تھا
راشد علی مرکھیانی
No comments:
Post a Comment