شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب
آپ سے اور کیا کہوں صاحب
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
ذلتِ زیست یا شکستِ ضمیر
یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب
ہم تمہیں یاد کرتے رو لیتے
دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب
شام بھی ڈھل رہی ہے گھر بھی ہے دور
کتنی دیر اور میں رکوں صاحب
اب جھکوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا
کیسے اب اور میں جھکوں صاحب
کچھ روایات کی گواہی پر
کتنا جرمانہ میں بھروں صاحب
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment