Thursday 3 August 2023

کسی گمان کسی آگہی سے خائف ہے

 کسی گمان، کسی آگہی سے خائف ہے

عجیب شخص ہے، وہ ہر کسی سے خائف ہے

ستارہ ڈوب گیا اعتبار کا شاید

تِرا اندھیرا مِری تیرگی سے خائف ہے

چراغ قتل کیے جا رہے ہیں گلیوں میں

تمام شہر یہاں روشنی سے خائف ہے

جو میرے سامنے آیا تو یہ لگا مجھ کو

وہ ہوشیار، مِری سادگی سے خائف ہے

ڈرا ہوا ہے وہ اپنی ہی ذات سے نیلم

دھڑک رہا ہے مگر زندگی سے خائف ہے


نیلم بھٹی

No comments:

Post a Comment