اک ضرورت میں صرف ہو گئے تھے
پھر مِرے ہاتھ برف ہو گئے تھے
لفظ کی طرح تھے کبھی ہم لوگ
اور پھر حرف حرف ہو گئے تھے
شہر کی ہر گلی کشادہ تھی
لوگ ہی تنک ظرف ہو گئے تھے
سخت گرمی تھی ان دنوں لیکن
اپنے جذبات برف ہو گئے تھے
جتنے آنسو تھے میری آنکھوں میں
نوجوانی میں صرف ہو گئے تھے
طاہر عظیم
No comments:
Post a Comment