دل میں ہر چند آرزُو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گُفتگُو تھی بہت
سنگ منزل یہ چھیڑتا ہے مجھے
آ تجھے میری جُستجُو تھی بہت
کون ہے جس سے میں نہیں الجھا
گو مِری طبع صلح جُو تھی بہت
اک تِری ہی نگاہ میں نہ جچے
شہر میں ورنہ آبرُو تھی بہت
بڑھ گئی تجھ سے مل کے تنہائی
رُوح جُویائے ہم سبُو تھی بہت
باصر کاظمی
No comments:
Post a Comment