Thursday, 3 August 2023

دل میں ہر چند آرزو تھی بہت

 دل میں ہر چند آرزُو تھی بہت

کام تھوڑا تھا گُفتگُو تھی بہت 

سنگ منزل یہ چھیڑتا ہے مجھے

آ تجھے میری جُستجُو تھی بہت

کون ہے جس سے میں نہیں الجھا

گو مِری طبع صلح جُو تھی بہت

اک تِری ہی نگاہ میں نہ جچے

شہر میں ورنہ آبرُو تھی بہت

بڑھ گئی تجھ سے مل کے تنہائی

رُوح جُویائے ہم سبُو تھی بہت


باصر کاظمی

No comments:

Post a Comment