Monday, 7 August 2023

نہ جانے کیوں اس گھڑی بکھرنے سے رہ گیا تھا

 نہ جانے کیوں اس گھڑی بکھرنے سے رہ گیا تھا

میں اس کی آواز پر ٹھہرنے سے رہ گیا تھا

اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا

وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا

خوشی کے رستے کو مسکراتا ہوا گیا ہے

وہ غم جو دل میں قیام کرنے سے رہ گیا تھا

کسی کی آنکھوں سے بہہ چلی تھی تمام حیرت

وہ آئینہ رو تھا اور سنورنے سے رہ گیا تھا

متاعِ دل کو بچا تو لائی تھی نارسائی

کہ رہ گیا تھا وہ قرض اترنے سے رہ گیا تھا

میں ایک منظر میں اک مصور کا روپ دھارے

اس ایک منظر میں رنگ بھرنے سے رہ گیا تھا

ہماری آنکھوں میں کچھ نہیں تھا سوائے دل کے

سوائے دل کے سبھی سنورنے سے رہ گیا تھا

کسی جزیرے پہ رات یادیں برس رہی تھیں

کہیں سمندر تھا جو بپھرنے سے رہ گیا تھا


کامران نفیس

No comments:

Post a Comment