نہ جانے کیوں اس گھڑی بکھرنے سے رہ گیا تھا
میں اس کی آواز پر ٹھہرنے سے رہ گیا تھا
اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا
وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا
خوشی کے رستے کو مسکراتا ہوا گیا ہے
وہ غم جو دل میں قیام کرنے سے رہ گیا تھا
کسی کی آنکھوں سے بہہ چلی تھی تمام حیرت
وہ آئینہ رو تھا اور سنورنے سے رہ گیا تھا
متاعِ دل کو بچا تو لائی تھی نارسائی
کہ رہ گیا تھا وہ قرض اترنے سے رہ گیا تھا
میں ایک منظر میں اک مصور کا روپ دھارے
اس ایک منظر میں رنگ بھرنے سے رہ گیا تھا
ہماری آنکھوں میں کچھ نہیں تھا سوائے دل کے
سوائے دل کے سبھی سنورنے سے رہ گیا تھا
کسی جزیرے پہ رات یادیں برس رہی تھیں
کہیں سمندر تھا جو بپھرنے سے رہ گیا تھا
کامران نفیس
No comments:
Post a Comment