Monday, 7 August 2023

چھوڑ جاتے ہیں مرے یار مجھے غاروں میں

 چھوڑ جاتے ہیں مِرے یار مجھے غاروں میں

میری تنہائی کھلا کرتی ہے تہواروں میں

حسن بڑھتا ہے اگر زخم سلیقے سے لگیں

کیسا دلکش نظر آتا ہے فلک تاروں میں

تجھ کو معلوم نہیں لذتِ لمسِ اول

تُو بہت بعد میں آیا ہے طرحداروں میں

رات بھر میں نے چراغوں کو لہو سے سینچا

کیوں مِرا نام نہیں صبح کے معماروں میں

بے گھری ہم نے بھرم رکھا ہے تیرا، ورنہ

شب کو سائے بھی پلٹ جاتے ہیں دیواروں میں

عالمِ ردِ طرب دیکھ مجھے ہنستا ہوا

ایسا کرتا ہے کوئی اور زیاں کاروں میں

سلسلہ وار سفر کرتی ہوئی نسبتِ خاص

معتبر آج بھی ہے غارِ حرا غاروں میں

حسنِ نازک کو ملی سخت مزاجی کی فضا

  آئینہ زخمی ہوا آئینہ برداروں میں

خلوتِ خاص کا عنصر تھا مگر کچھ کم ظرف

لذتِ گریہ اٹھا لائے ہیں بازاروں میں

مسکرانا تو عقیل اور ہے، خوش رہنا اور

ہر ہرا پیڑ نہیں گنتے ثمر داروں میں


عقیل عباس چغتائی

No comments:

Post a Comment