دل تھا زخمی پھر بھی ہم ہنس دینے پر مجبور ہوئے
اس کا نتیجہ بس یہ نکلا، زخم جو تھے ناسور ہوئے
معصوم محبت ہے اپنی، یعنی اپنا حال یہ ہے
ان کو دیکھا ایک نظر، بس دیکھا اور مسرور ہوئے
دنیا کے اس شیش محل میں کس نے یوں پتھراو کیا
شیشے تو پھر شیشے ٹہرے دل بھی چکنا چور ہوئے
حسن و عشق ہیں دونوں ظالم، دونوں میں ہوتی ہے انا
پہلے تو مغرور وہی تھے پھر ہم بھی کچھ مغرور ہوئے
بارِ گناہ ہو بارِ مصائب سر پہ لیے پھرتے ہی رہے
یعنی اس بازارِ جہاں میں ہم نہ ہوئے مزدور ہوئے
اندھوں کی طرح جیتے تھے ہم دن بھی کالے راتیں بھی
جیتے جی کے تھے یہ اندھیرے صبح ہوئی کافور ہوئے
میں نے گناہ عشق کیا تھا اتنے فرطِ خلوص کے ساتھ
داغِ گناہِ زہدِ ریائی اس کی بدولت دور ہوئے
سید فضل کریم فضلی
No comments:
Post a Comment