Tuesday, 8 August 2023

ہم نفس جب لکیر کھینچتے ہیں

 ہم نفس جب لکیر کھینچتے ہیں

لوگ لفظوں کے تیر کھینچتے ہیں

لڑکھڑاہٹ سرشت میں کب تھی

دل کو تجھ ایسے پِیر کھینچتے ہیں

خیمۂ شب کی ڈوریوں کو صنم

یہ تمہارے اسیر کھینچتے ہیں

یہ جو ہم کش پہ کش لگاتے ہیں

لمس کی یوں نفیر کھینچتے ہیں

میں نہیں دائرے میں رہنے کا

دائرہ تو فقیر کھینچتے ہیں

آستیں اس لیے پھٹی ہوئی ہے

مجھ کو منکر نکیر کھینچتے ہیں

حضرتِ میر کا جو ٹھیلا تھا

اب جنابِ شہیر کھینچتے ہیں


شہیر تہامی

No comments:

Post a Comment