ہم نفس جب لکیر کھینچتے ہیں
لوگ لفظوں کے تیر کھینچتے ہیں
لڑکھڑاہٹ سرشت میں کب تھی
دل کو تجھ ایسے پِیر کھینچتے ہیں
خیمۂ شب کی ڈوریوں کو صنم
یہ تمہارے اسیر کھینچتے ہیں
یہ جو ہم کش پہ کش لگاتے ہیں
لمس کی یوں نفیر کھینچتے ہیں
میں نہیں دائرے میں رہنے کا
دائرہ تو فقیر کھینچتے ہیں
آستیں اس لیے پھٹی ہوئی ہے
مجھ کو منکر نکیر کھینچتے ہیں
حضرتِ میر کا جو ٹھیلا تھا
اب جنابِ شہیر کھینچتے ہیں
شہیر تہامی
No comments:
Post a Comment