زعفرانی غزل
ازل ترازو میں رکھا عدم لگایا گیا
ہمارا بھاؤ نہایت ہی کم لگایا گیا
دیارِ شاہ عنایت میں تھک گئے رقاص
پھر اس پہ ڈھونڈ کے اک محترم لگایا گیا
بدن میں درد نہ جاگے تو نیند آتی نہیں
ہمارے سینے سے یہ کیسا غم لگایا گیا
زمین بانجھ تھی گُل اُگ نہیں رہے تھے وہاں
پھر اُس جگہ مِری آنکھوں کا نَم لگایا گیا
ہمارے ساتھ وفا میں گیا بڑوں کا بھی سَر
کہ داؤ پر تھا بڑوں کا بھرم لگایا گیا
مجذوب ثاقب
No comments:
Post a Comment