زعفرانی غزل
دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں
ہرن کو وہ چیتا بنائے ہوئے ہیں
نہیں لکھتے ہیں خط جو ہم کو وہ قاصد
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار نہ تلوار ان سے
"یہ بازو مِرے آزمائے ہوئے ہیں"
اگر ان کو پوجا تو کیا کفر ہو گا
کہ بت بھی خدا بنائے ہوئے ہیں
کوئی باندھو نہ باندھے اب کچھ نہ ہو گا
کہ ہم رنگ اپنا جمائے ہوئے ہیں
ہزج میں بھی اشعار اے نادر! اب پڑھ
کہ بزم سخن میں سب آئے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
کلب حسین نادر
No comments:
Post a Comment