Friday 13 October 2023

اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی ڈھابوں میں ملیں

(زعفرانی غزل (تضمین


اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی ڈھابوں میں ملیں

جیسے کچھ پُوڈری ہر روز خرابوں میں ملیں

میں نے پیپسی میں ملائی ہے، ذرا سی سپرائٹ

نشہ بڑھتا ہے نوشابے جو نوشابوں میں ملیں

ڈھونڈ مت بیڈ کی درازوں میں چُھپائے پیسے

یہ خزانے تجھے ممکن ہے جُرابوں میں ملیں

آج ہم گھر سے نکالے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

یوں رضائی میں پڑے رہتے ہیں اکثر، ثاقب

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں


عباس ثاقب

No comments:

Post a Comment