ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے
سہمے سہمے سے ہی بس غبار دیکھتے رہے
شہرتیں، یہ دولتیں، یہ مسندیں، ملیں پہ ہم
بے نیاز ہی رہے، ہزار دیکھتے رہے
آخرش زمانہ ان کو چھوڑ آگے بڑھ گیا
ہر قدم جو عزت و وقار دیکھتے رہے
ان کو پھر اماں کہاں نصیب ہونی تھی، کہ جو
ہر مقام سے رہ فرار دیکھتے رہے
ایک ایک کر کے قتل ہو رہی تھی پھر بھی ہم
اپنی خواہشوں کی اک قطار دیکھتے رہے
ہے محافظ چمن کا مجرمانہ طور یہ
نچ گئی کلی کلی پہ خار دیکھتے رہے
سب سیاہ تھا کہیں نہ سب سفید، پھر بھی ہم
لیل دیکھتے رہے، نہار دیکھتے رہے
باہر اپنے خول سے نہ آ سکے تمام عمر
ہم درون ذات خلفشار دیکھتے رہے
حوصلہ نہ کاوشیں، عمل نہ ربط آسماں
ہم کہ حسرتوں کا اک مزار دیکھتے رہے
آفتاب و کہکشاں، یہ چاند، تارے دور سے
روشنی کا بالیقیں مدار دیکھتے رہے
اب گلہ ہے کیوں مدد کا آسماں سے، جب کہ ہم
کایر ایسے تھے کہ خود پہ وار دیکھتے رہے
تیرے بن حیات کی سوچ بھی گناہ تھی
ہم قریب جاں ترا حصار دیکھتے رہے
دوسروں کے حق کی وہ لڑائی لڑ سکیں گے کیا
وہ جو اپنے آپ کو بھی خوار دیکھتے رہے
خالد ایسے بھی تو ہیں کنارے بیٹھ کر ہی جو
بحر میں چڑھاؤ اور اتار دیکھتے رہے
قیصر خالد
No comments:
Post a Comment