Wednesday, 18 October 2023

خندہ زن ہیں اہل دل مثل گل گلزار آج

 سلطانیہ بورڈنگ ہاؤس علیگڑھ کی رسمِ افتتاح یکم مارچ 1914 میں پڑھی گئی


خندہ زن ہیں اہل دل مثل گل گلزار آج

نغمہ زن جوں عندلیب شکرین منقار آج

عجب قُرب شاہ سے بے شادی کیے نوشاہ ہیں

کیفِ جامِ فرح سے بے مئے پیے سرشار آج

دولتِ فکر و مسرت سے ہیں مالا مال سب

مٹ گیا فرقِ قبیحِ مُفلس و زردار آج

کِشتِ جاں کی قطرہ جوئی نے کیا طوفان بپا

جوش میں آیا ہے بحرِ رحمتِ غفار آج

ہو گیا سر سبز یکسر لالہ زارِ آرزو

واہ وا، کیا رنگ لایا دیدۂ خونبار آج

کام نکلا تم سے اپنا نالہائے نِیم شب

قسمت خوابیدہ آخر ہو گئی بیدار آج

حضرتِ عیسیٰ کو لایا چرخِ چارم سے یہی

دل سے دیتا دعائیں درد کو بیمار آج

جلوۂ اقبال رو در رو نظر آنے لگا

ہو گئی رو در قفا تاریکئ ادبار آج

جہل کے لشکر پہ غالب آ گیا سلطانِ علم

جس طرح اٹلی پہ ہے سنوسی جرار آج

٭

ہے زنانہ مدرسہ کی آج رسمِ افتتاح

کیوں ہر اک رخ پر مسرت کے نہ ہوں آثار آج

یہ زنانہ مدرسہ بنیادِ قصرِ علم ہے

ہاں یہی ہے تکیہ گاہِ قومِ بے تکرار آج

میہماں مدرسہ ہے ملکہ گردوں حشم

سر بہ گردوں کیوں نہ ہوں اس کے در و دیوار آج

یعنی سلطان جہان بیگم مہ اوجِ کمال

مطلعِ ملت ہے جس سے مطلع الانوار آج

مرحبا، صد مرحبا، اے نا خدائے با خدا

تُو نے ڈُوبی قوم کا بیڑا کیا ہے پار آج

تیری دولت خواہ ملت، تیرا مدحت سنج ملک

تیری عظمت آشنا برطانوی سرکار آک

سیدِ ملت بھی تُو ہے، خادمِ ملت بھی تُو

صادق آیا تجھ پہ قولِ سید الابرارؐ آج

تیرا دستِ فیض ہے مانند نیر زرفشاں

تیری چشمِ لطف مثلِ ابر ہے دربار آج

یوں تِرا لطف و کرم نا قابلِ انکار ہے

جیسے اپنا جوش دل مستغنئ اقرار آج

اے زہے قسمت کہ تجھ سی ملکۂ زریں وثاق

آ کے یاں خود ہم کو بخشے دولتِ دیدار آج

نذر کو لائی ہوں میں اے بلبلِ باغِ کمال

خدمتِ والا میں اک گلدستۂ اشعار آج


ز خ ش

زاہدہ خاتون شروانیہ

No comments:

Post a Comment