Wednesday, 18 October 2023

میرے سر سے مرا سائباں اٹھ گیا

 میرے سر سے مِرا سائباں اُٹھ گیا

سایہ دار اک شجر مہرباں،اٹھ گیا

وہ محبت کی تھا اک زباں، اٹھ گیا

خامشی جس کی رشک بیاں، اٹھ گیا

استقامت کا کوہِ گراں، اٹھ گیا


سخت تکلیف میں لب پہ شکوہ نہیں

جاری کلمہ زباں پر دم آخریں

پیکرِ صبر تھا سخت جاں، اٹھ گیا


اک لگن جس کو توحید و سنت سے تھی

اور نفرت فقط شرک و بدعت سے تھی

رب کی توحید کا ترجماں اٹھ گیا


زندگی میں بہاریں تِرے دم سے تھیں

بن تِرے گھر ہے سنسان، رونق نہیں

تُو بہاروں کو کر کے خزاں، اٹھ گیا


بہن بھائی گیارہ تھے، پالا ہمیں

نیکیوں والے سانچے میں ڈھالا ہمیں

اپنی کشتی کا تھا بادباں اٹھ گیا


میرے گلشن کی اک خوبصورت کلی

دور مادہ پرستی میں رب کا ولی

رحمتوں برکتوں کا جہاں اٹھ گیا


تھی مثالی صداقت، شرافت تِری

دی ہے خلق خدا نے شہادت تِری

اک دکاں دار، رشکِ جناں، اٹھ گیا


تھی دیانت، تجارت میں ضرب المثال

اس رویے سے تھی ایک دنیا نہال

آپ جیسا کوئی اب کہاں، اٹھ گیا


جب مصائب کی چلتی تھیں تیز آندھیاں

تیرے ہوتے ہوئے فکر ہم کو کہاں

میرے بابا! مِرا آسماں اٹھ گیا


عبدالرحمٰن شاکر

No comments:

Post a Comment