زعفرانی غزل
تیرے رہنے کو مناسب تھا کہ چھپر ہوتا
کہ نہ چوکھٹ تِری ہوتی نہ مِرا سر ہوتا
قسمت نجد کا گر قیس کمشنر ہوتا
لیڈی لیلیٰ کی ہوا خوری کو موٹر ہوتا
غیر مل جل کے اٹھا لیتے کہ تھے بے غیرت
گو پہاڑ آپ کے احسان کا چھپر ہوتا
چائے میں ڈال کر عشاق اسے پی جاتے
در حقیقت لب معشوق جو شکر ہوتا
ملک الموت پہ جھلنے کو بناتا میں چنور
طائر روح کی دم میں جو کوئی پر ہوتا
لے ہی لیتا لبِ دلدار کا بوسہ اڑ کر
کاش عاشق جو بنایا تھا تو مچھر ہوتا
ٹھوکریں غیر کے مرقد پہ لگاتا کیوں کر
بوٹ کی جا پہ جو تو پہنے سلیپر ہوتا
چاٹتا ساری کتابوں کو بغیر از دقت
علم کا شوق جسے ہے جو وہ جھینگر ہوتا
پاس کرتا رزولیوشن کہ حسینوں پہ ہو ٹیکس
میں کبھی میونسپلٹی کا جو ممبر ہوتا
لکھنؤ سے شب یک شنبہ بریلی آتے
پاؤں میں گر نہ ظریف اپنے سنیچر ہوتا
ظریف لکھنوی
No comments:
Post a Comment