زعفرانی غزل
ایک دن مجھ سے یہ فرمانے لگی بیوی مِری
میری سوتن بن گئی ہے آپ کی یہ شاعری
وہ یہ کہہ کر مجھ سے کرتی ہے ہمیشہ احتجاج
شاعری سے آپ کی ہوتا ہے مجھ کو اختلاج
سوچتی ہوں کس طرح ہو گا ہمارا اب نِباہ
مجھ کو روٹی چاہیے اور آپ کو بس واہ واہ
مجھ کو رہتی ہے سدا بچوں کے مستقبل کی دھن
آپ بیٹھے کر رہے ہیں فاعلاتن فاعلن
رات کافی ہو چکی ہے نیند میں بچے ہیں دُھت
آپ یوں ساکت ہوئے بیٹھے ہیں جیسے کوئی بُت
میں یہ کہتی ہوں چُکا دیجے جو پچھلا قرض ہے
آپ اپنی دُھن میں کہتے ہیں کہ مطلع عرض ہے
میں یہ کہتی ہوں کہ دیکھا کیجیے موقع محل
چھیڑ دیتے ہیں کہیں بھی غیر مطبوعہ غزل
مان لیتی ہوں میں چلیے آپ ہیں شاعر گریٹ
شاعری سے بھر نہیں سکتا مگر بچوں کا پیٹ
اپنے ہندوستان میں مُردہ پرستی عام ہے
جتنے شاعر مر چکے ہیں بس انہیں کا نام ہے
جب تلک زندہ رہے پیسے نہ تھے کرنے کو خرچ
مر گئے تو ہو رہی ہے مرزا غالب پر ریسرچ
میں یہ بولا بند کر اپنا یہ بے ہودہ کلام
تجھ کو کیا معلوم کیا ہے ایک شاعر کا مقام
جُھوٹ ہے شامل تصنع ہے نہ کچھ اس میں دروغ
شاعری سے پا رہی ہے آج بھی اردو فروغ
ہوں ثناء خواں میں فگار و ساغر و شہباز کا
رُخ بدل ڈالا جنہوں نے شعر کے پرواز کا
نشتر امروہوی
No comments:
Post a Comment