تِرے آئینہ فن میں
سراپا دیکھ کر اپنا
بہت حیران ہوں
اور بارہا پلکیں جھپکتی ہوں کہ یہ میں ہوں
(کہ کوئی اور لڑکی ہے )
میری آنکھوں میں پہلے بھی شرارت تھی
مگر اب تو ستارے کھِلکھلاتے ہیں
لیکن اب تو بے ضرورت مسکراتے ہیں
غرور سا کہاں کا آ گیا دھیمے مزاجوں میں
کہ دن میں بھی اُڑی پھرتی ہوں خوابوں کی ہواؤں میں
مِرے لہجے میں ایسی نرم فامی کب سے در آئی
کہ جس سے بات کرتی ہوں
سماعت پھول چُنتی ہے
ہنسی میں اُس کھنک کی گونج ہے
جس سے محبت گیت بُنتی ہے
اور ان سب سے سوا
دل کی گدازی
جو مجھ کم ظرف کو شائستہ ضبطِ الم کردے
کٹے دُشمن کی بھی انگلی تو میری آنکھ نم کر دے
چکھائے چشم پوشی
دوست کا پردہ رکھے
بلکہ
خلوصِ ہم رہاں کی آنکھوں سے ہمیشہ دیکھنا ہی
ترک کروا دے
لہو کے اعترافِ عشق پر ایمان لانے کی بصیرت دے
مجھے گوتم کے ہر اُپدیش عیسیٰ کے ہر اک سرمن کا بین السّطر
سمجھا دے
میں اُس کی خوشنما آنکھوں سے
دُنیا دیکھتی ہوں
مُسکرا کر سوچتی ہوں
زمیں یک لخت کتنی خوبصورت ہو گئی ہے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment