عشق میں ملا کے عشق دو خراج عشق کا
کہا درویش نے عشق ہی ہے علاج عشق کا
تاریخ پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آئی ہے
دشمن رہا ہے ہر دور میں سماج عشق کا
بیٹھ ہم فقیروں کی محفل میں تجھے پتہ چلے
کل بھی عشق کا تھا، ہے آج عشق کا
پتھر کھا کے بھی گلی نہ چھوڑے یار کی
عشق دیوانے کا اور دیوانہ محتاج عشق کا
اس شہر میں بڑھ جاتی ہے مقتل کی رونق
جس شہر میں پڑ جائے رواج عشق کا
سرِ مقتل کہی دیوانے نے بڑے پتے کی بات
سر کٹا کر کروں گا قائم میں راج عشق کا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment