کب ترے حسنِ طرحدار کی حد ہوتی ہے
کیا کیا جائے کے افکار کی حد ہوتی ہے
سوچ کے پنچھی کو اڑنا ہے، درونِ تقدیر
دام لا حد ہے، گرفتار کی حد ہوتی ہے
اب تُو اقرار بھی کر لے تو یقیں کس کو ہے
یار! جانے بھی دے، انکار کی حد ہوتی ہے
تُو کسی روز مجھے یوں ہی گنوا بیٹھے گا
بات بے بات یوں تکرار کی حد ہوتی ہے
ایک حد ہوتی ہے، لڑنے کی قلم سے، سچ ہے
اس سے پھر آگے تو، تلوار کی حد ہوتی ہے
لاکھ کہتے رہو تم، حد میں رہا کر سانول
مِرے معصوم صنم! پیار کی حد ہوتی ہے؟
سانول حیدری
No comments:
Post a Comment