زخم در زخم مشقت کو بڑھانے کا ہے
عشق وہ رزق ہے جو روز کمانے کا ہے
تیری ضد پر جو لگایا ہے بمشکل پھر آج
قہقہہ یہ مِرے بچپن کے زمانے کا ہے
میں عدالت سے رکھوں کیسے امید انصاف
میرا دشمن ہی بڑے اونچے گھرانے کا ہے
گال مرجان، جبیں دُرِ نجف، لب یاقوت
یہ تِرا چہرہ ہے یا ڈھیر خزانے کا ہے
سچ کہوں یار بچھڑنے کا سبب کوئی نہیں
اصل میں وقت ہی اب ہاتھ چھڑانے کا ہے
مشورہ مانیے اور لائیے بازار میں خواب
یہی تو وقت ہے جو نرخ بڑھانے کا ہے
آپ کیوں جلتا ہوا شہر بجھانے آئے؟
آپ کا کام ہی جب آگ لگانے کا ہے
یا مجھے ٹھیک سے رونا نہیں آتا حیدر
یا وہ دل ہی کسی پتھر کے زمانے کا ہے
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment