ان دلبروں کی بات میں اپنی جگہ کہاں
اس پوری کائنات میں اپنی جگہ کہاں
وہ ناصحانہ شہر کو شامل کریں گے اب
پیچیدہ حادثات میں اپنی جگہ کہاں
یہ سوچ کر میں آپ کی محفل سے اٹھ گیا
اس حلقۂ اثبات میں اپنی جگہ کہاں
کیا لینا موسموں سے مجھ گرد و غبار کو
بہار میں، برسات میں، اپنی جگہ کہاں
مسخرے بنے ہیں ہم پتوں کے کھیل میں
اب جیت میں نہ مات میں اپنی جگہ کہاں
سید وہ ڈھونڈتا ہے لکیروں میں اب مجھے
اس خوبرو کے ہاتھ میں اپنی جگہ کہاں
خرم نقوی
No comments:
Post a Comment