خدا کرے، کبھی آئے نہ سازگار مجھے
یہ دل کا درد جو رکھتا ہے بیقرار مجھے
نہ راہ پر ہے، نہ منزل پہ اختیار مجھے
یہ لے چلی ہے کہاں جستجوئے یار مجھے
عجیب چیز ہیں رُسوائیاں محبت کی
نہ اختیار ہے ان کو، نہ اختیار مجھے
مزاجِ دوست کرم آشنا نہیں، نہ سہی
خود اپنے ذوقِ وفا پر ہے اعتبار مجھے
یہ جانتا ہوں کہ میں کیا، مِری محبت کیا
تِری کشش ہے جو رکھتی بے قرار مجھے
یہ کیسی منزلِ وارفتگئ شوق آئی
یقیں ہے دل پہ، نہ آنکھوں پہ اعتبار مجھے
چمن کو چھوڑ کے جاتا تو ہوں چمن والو
کرے گی یاد، مگر مُدتوں بہار مجھے
خود اپنی بے خودئ شوق کے سوا تسکیں
ملا نہ کوئی محبت میں پردہ دار مجھے
تسکین قریشی
No comments:
Post a Comment