Monday, 16 October 2023

نغمۂ محمدی وہ پاکیزہ چشمہ جو اوج فلک سے چٹانوں پہ اترا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

نغمۂ محمدی 


وہ پاکیزہ چشمہ

جو اوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا

سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ 

جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے

چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا

چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے

وہ کتنے ہی صد رنگ ان گھڑ خزف ریزے

آغوشِ شفقت میں اپنی سمیٹے

بہت سے سسکتے ہوئے رینگتے، سُست کم مایہ سوتوں کو 

چونکاتا، للکارتا ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا

بے نمو وادیاں لہلہانے لگیں

پھول ہی پھول چاروں طرف کھل اٹھے

جس طرف اُسﷺ کا رُخ پھر گیا

اُسﷺ کے فیضِ قدم سے بہار آ گئی

یہ چٹانوں کے پہلو کی چھوٹی سی وادی ہی کچھ

اُسﷺ کی منزل نہ تھی

وہ تو بڑھتا گیا

کوئی وادی، کوئی دشت، کوئی چمن، گُلستاں، مرغزار

اُسﷺ کے پائے رواں کو نہ ٹھہرا سکا

اُسﷺ کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے

خشک نہريں بھی تھیں، اُترے دریا بھی تھے

سیلِ جاں بخش کے، اُسﷺ کے سب منتظر

جوق در جوق پاس اُسﷺ کے آنے لگے

شور آمد کا اُسﷺ کی اُٹھانے لگے

راہبرﷺ ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو

کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے

راہ گھیرے ہوئے، پاؤں پکڑے ہوئے

یاد آتا ہے مسکن پرانا ہمیں

آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں

ورنہ یونہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے

جال میں ان زمینوں کے پھنس جائیں گے

اپنے خالق کی آواز کانوں میں ہے

اپنی منزل وہيں آسمانوں میں ہے

گرد آلود ہیں پاک کر دے ہمیں

آ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں

وہ رواں ہے، رواں ہے، رواں اب بھی ہے

ساتھ ساتھ اُس کے اک کارواں اب بھی ہے

شہر آتے رہے، شہر جاتے رہے

اُسﷺ کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے

اُسﷺ کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی

ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی

قصر اُبھرا کيے خواب ہوتے گئے

کتنے منظر تہہِ آب ہوتے گئے

شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں

عظمتیں کتنی نایاب ہوتی گئیں

اُسﷺ کی رحمت کا دھارا ہے اب بھی رواں

از زمیں تا فلک

از فلک تا زمیں

از ازل تا ابد جاوداں، بیکراں

دشت و در، گُلشن و گُل سے بے واسطہ

فیض یاب اس سے کل

اور خود کل سے بے واسطہ


شاعر: جان وولف گانگ فان گوئٹے 

اردو ترجمہ:  شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment