دِیا کوئی جلا کر دیکھتے ہیں
ہوا کا منہ چِڑا کر دیکھتے ہیں
اندھیرا جو اُجالے میں بدل دے
اُسی کو ہم بُلا کر دیکھتے ہیں
مزاجِ آتشی دل کا بدل دیں
طبیبوں کو بُلا کر دیکھتے ہیں
کہاں لیلائے فن پردہ نشیں ہے
چلو! پردہ اُٹھا کر دیکھتے ہیں
ہمیشہ غم چشیدہ ہی رہے ہیں
چلو اب مُسکرا کر دیکھتے ہیں
پلٹ سکتی ہے کایا کاوشوں سے
ہُنر یہ آزما کر دیکھتے ہیں
سخن فہمی اسے مرغوب ہے تو
اسے غزلیں سُنا کر دیکھتے ہیں
ہے کیسی کیفیت ان دل جلوں کی
ذرا دل کو جلا کر دیکھتے ہیں
وہ کتنا نُکتہ بِین و نُکتہ داں ہے؟
نئے نُکتے اُٹھا کر دیکھتے ہیں
گریباں چاک رکھا ہے برابر
گریباں اب سِلا کر دیکھتے ہیں
بُجھے گی آگ پانی سے بھلا کب؟
چلو پھر پی پلا کر دیکھتے ہیں
حسینوں کی فسانہ ساز فطرت
فسانوں میں سجا کر دیکھتے ہیں
قسم بے گانگی کی جس نے کھائی
اسے اپنا بنا کر دیکھتے ہیں
مِری پُونجی یہ رُشحاتِ قلم ہیں
جسے سب گُنگنا کر دیکھتے ہیں
دلِ تِیرہ میں ثاقب آؤ پھر سے
نئی شمعیں جلا کر دیکھتے ہیں
عباس علی شاہ ثاقب
No comments:
Post a Comment