وہ زخم ملے روح کو پتھر کے صنم سے
کرتے ہیں شب و روز وضو دیدۂ نم سے
افسوس جوانی میں کمر جُھک گئی اُس کی
حیرت ہے کہ وہ ہار گیا، رنج و الم سے
راس آ گئی صحرا کو مِری اشک فشانی
اشجار سکوں پاتے ہیں اکثر مِرے غم سے
یہ سوچ کے تصویر جلائی نہیں اُس کی
محروم نہ ہو جاؤں کہیں نظرِ کرم سے
وہ وصل کی شب ایک قدم پیچھے ہٹا تھا
پھر فاصلے بڑھتے گئے اُس ایک قدم سے
یادوں کا محل آج بھی تعمیر ہے دل پر
یا یوں کہوں روشن ہے یہ گھر آپ کے دم سے
وہ بُت جو عبادت میں خلل بنتا ہے میری
اُس بُت کو نکالوں گا کسی روز حرم سے
صدقہ ہیں تِرے حُسن کا یہ چاند ستارے
سُورج کو مِلا نُور تِرے نقشِ قدم سے
ہم اہلِ عزا،۔ اہلِ بُکا،۔ اہلِ فُغاں ہیں
کیا خاک تقابل ہو زمانے، تِرا ہم سے
"دو شعر کہے خود کو سمجھنے لگے "غالب
قِرطاس سے واقف ہیں نہ واقف ہیں قلم سے
یوں کوچۂ جاناں سے نکالا گیا محور
آدم کو نکالا گیا جس طور اِرم سے
محور سرسوی
No comments:
Post a Comment