Tuesday, 14 November 2023

بعد اس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا

 بعد اُس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا

بس کسی کے نام کا پتّھر لگا رہ جائے گا

کان بھر جائینگے میرے خلوتوں کے شور سے

اُس کی یادوں کا پیمبر بولتا رہ جائے

قید کر لے گا کوئی بچہ پروں کو کاٹ کر

آسماں کی سمت طوطا دیکھتا رہ جائے گا

قتل کر ڈالوں میں خود کو سوچتا ہوں بار بار

میرے ہاتھوں میں مگر یہ خُوں لگا رہ جائے گا

اجنبی بن بن کے پوچھوں‌‌ گا میں اپنی خیریت

آج آئینہ⌗ مِرا منہ دیکھتا رہ جائے گا

لمس کے شعلوں میں ساری ہڈیاں گل جائیں گی

صرف کاندھوں پر ہمارا سر دھرا رہ جائے گا

لوگ ویرانے میں چُھپ جائینگے مارے خوف کے

بستیوں کے بیچ اُلّو 🦉 بولتا رہ جائے گا

یوں اُڑاؤں گا میں سب کے سامنے اپنا مذاق

وہ مِرے بارے میں کیا کچھ سوچتا رہ جائے گا


ظفر زیدی

No comments:

Post a Comment