سنتے ہیں وفا کے رستے میں ہم تم کبھی منزل پا نہ سکے
اک ڈور جو پہلے اُلجھی تھی، ہم آج تلک سُلجھا نہ سکے
جب فصل بہاراں آئی تھی کچھ خواب بُنے تھے دونوں نے
ہم عہدِ وفا پر قائم ہیں،۔ ہاں آپ کرم فرما نہ سکے
یہ لالہ و گُل رنگین قبا میرے ہی لہو سے آج بھی ہیں
وہ آنکھ ہمیں دِکھلاتے ہیں جو آنسو بھی چھلکا نہ سکے
کیا جانیۓ کیا مجبوری تھی یہ کیسی ہم سے دوری تھی
ہم نے تو سجائی محفل دل، پر آپ یہاں تک آ نہ سکے
سب جام بکف تھے مقتل میں جب قتل ہوا دیوانے کا
اربابِ حرم نے سب دیکھا اک حرف زباں تک لا نہ سکے
غزلیں بھی کہیں نظمیں بھی کہیں تقریر بھی کی تحریر لکھی
کچھ درد نہاں تھے سینے میں ہم اپنی زباں تک لا نہ سکے
یہ شعر نہیں ہے قیصر جی! غزلوں میں کہانی کہتے ہیں
آنکھوں نے جو دیکھا کہ ڈالا ہاں زخم جگر دِکھلا نہ سکے
قیصر جمیل ندوی
No comments:
Post a Comment