فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے
اور جلوہ ریز آپ مکاں در مکاں رہے
گھر بے نشاں قفس سے رہائی چمن میں برق
اس بے بسی کے دور میں کوئی کہاں رہے
رُوداد اپنے عشق کی گُونگے کا خواب تھا
تا زیست اپنے راز کے خود رازداں رہے
تم کیوں اُداس ہو گئے میدانِ حشر میں
کہہ دو تو دل کی دل میں مِری داستاں رہے
منزل تھی دور راہ تھی غم خود شکستہ پا
شوقِ طلب! بتا تو سہی ہم کہاں رہے
دنیا ہو ابر یا وہ عدم ہو کہ بزم حشر
ان کی ہی جستجو میں رہے ہم جہاں رہے
ابر احسنی گنوری
احمد بخش
No comments:
Post a Comment