Sunday, 12 November 2023

فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے

 فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے

اور جلوہ ریز آپ مکاں در مکاں رہے

گھر بے نشاں قفس سے رہائی چمن میں برق

اس بے بسی کے دور میں کوئی کہاں رہے

رُوداد اپنے عشق کی گُونگے کا خواب تھا

تا زیست اپنے راز کے خود رازداں رہے

تم کیوں اُداس ہو گئے میدانِ حشر میں

کہہ دو تو دل کی دل میں مِری داستاں رہے

منزل تھی دور راہ تھی غم خود شکستہ پا

شوقِ طلب! بتا تو سہی ہم کہاں رہے

دنیا ہو ابر یا وہ عدم ہو کہ بزم حشر

ان کی ہی جستجو میں رہے ہم جہاں رہے


ابر احسنی گنوری

احمد بخش

No comments:

Post a Comment