ہر دُعا بااثر نہیں ہوتی
ہر دوا کارگر نہیں ہوتی
دل کو تسخیر کرنے والوں کی
معجزوں پر نظر نہیں ہوتی
بُوئے اخلاص سے جو عاری ہو
دوستی معتبر نہیں ہوتی
جو اندھیروں کو گود میں لے لے
وہ سحر تو سحر نہیں ہوتی
جس جگہ راج ہو تصنع کا
سادگی پھر ادھر نہیں ہوتی
دن کی ہر اک بلا ٹلی سر سے
منزلِ شب ہی سر نہیں ہوتی
ان کو ٹھوکر ضرور لگتی ہے
جن کی نیچے نظر نہیں ہوتی
ایک عالم سے باخبر دیکھا
جس کو اپنی خبر نہیں ہوتی
اِبنِ مریم کی پھر ضرورت ہے
پھر دوا کارگر نہیں ہوتی
میری نظروں سے رہ نہیں گزری
یاد ان کی جدھر نہیں ہوتی
عشق ہوتا نہ گر زمانے میں
حسن کی یہ قدر نہیں ہوتی
یاد آئی کسی کی شِدت سے
ورنہ یوں آنکھ تر نہیں ہوتی
بے خبر کو بھی تھی خبر لیکن
با خبر کو خبر نهیں ہوتی
جن کے گھر میں چراغ ہو مفتی
تیرگی ان کے گھر نہیں ہوتی
ایاز مفتی
No comments:
Post a Comment