کہاں کھڑے ہیں کہاں ہونا چاہیے تھا ہمیں
یہ نا رسائی کا دُکھ تو نا چاہیے تھا ہمیں
سمیٹ بھی چُکے تعبیریں خوابگاہوں سے وہ
ہم اب یہ سوچتے ہیں سونا چاہیے تھا ہمیں
پہنچ گیا ہے جبیں پر یہ بے نوائی کا داغ
تھا دل میں جب تو اسے دھونا چاہیے تھا ہمیں
یہ بے کرانیاں کون و مکاں کی کس کے لیے
مِرے کریم! بس اک کونا چاہیے تھا ہمیں
سخی کی سادہ دلی اور بے بسی دیکھو
عطا کیا ہے وہ سب جو نا چاہیے تھا ہمیں
دلوں کو مُردہ کیا ارتقاء کے چکر میں
دیارِ قہقہ میں رونا چاہیے تھا ہمیں
عادل گوہر
No comments:
Post a Comment