میری دل جوئی کی زحمت نہ اُٹھائے کوئی
رو کے بیٹھا ہوں مجھے پھر سے رُلائے کوئی
میرا سینہ تو یہ چھلنی ہے بہت پہلے سے
زخم اُلفت کا مجھے اب نہ لگائے کوئی
عمر گُزری ہے اسی زخمِ جگر میں میری
التجا ہے مجھے مرہم نہ لگائے کوئی
اس لیے لفظوں میں لایا ہوں غم ہستی کو
عشق کا دُکھ نہ مِرے بعد اٹھائے کوئی
میں کہ خوابوں کے سرابوں میں بھٹک لوں گا مگر
باعث ترکِ محبت تو بتائے کوئی
عبدالرؤف زین
No comments:
Post a Comment