آوارگی ہواؤں کی
ابھی نہیں
ابھی موسم نہیں بہاروں کا
ابھی تو برف بھی پگھلی نہیں ہے ہونٹوں کی
ابھی تو رنگ بھی بدلا نہیں ہے زخموں کا
ابھی تو دشت سے لوٹے نہیں ہیں سودائی
گھروں کے دِیپ ابھی روشنی نہیں دیں گے
ابھی چراغ جلانے کی رُت نہیں آئی
ابھی نہیں
ابھی موسم نہیں بہاروں کا
ابھی تو دیکھیے آوارگی ہواؤں کی
ہمارے شہر سے ہو کر کدھر کو جاتی ہے
ابھی تو دیکھیے دستِ خزاں کی شب کاری
ہماری آنکھ کے کتنے دِیے بُجھاتی ہے
ابھی تو دیکھیے دل کے گُلاب کی سُرخی
چمن کی دُھوپ میں کس کس کو راس آتی ہے
ابھی نہیں
ابھی موسم نہیں بہاروں کا
گھروں کے دِیپ ابھی روشنی نہیں دیں گے
ساقی جاوید
سید شوکت علی
No comments:
Post a Comment