عارفانہ کلام حمد نعت منقبت قصیدۂ نُورِ توحید
تشبیب
بھلا کون ہے دو جہاں کی حقیقت؟
دلوں پر بتاؤ ہے کس کی حکومت؟
تدبّر، تفکّر، یہ فہم و فراست
ملے ہیں یہ کیسے، ہے کس کی بدولت؟
رگوں میں لہو دوڑتا ہے بھلا کیوں؟
محرک ہے کیا؟ ہے یہ کس کی مشیّت؟
اِدھر ہے اندھیرا، اُدھر روشنی ہے
یہاں رات ٹھنڈی، وہاں ہے تمازت
کتابِ حقیقی بھلا کون سی ہے؟
رقم کس نے کی ہے یہ لاریب حکمت؟
بھلا کون سا نام ہے سب سے اعلیٰ؟
بھلا کون سے نام کی ہے ضرورت؟
یہ شمس و قمر اور چرخِ کواکب
کیا نور کس نے ہے ان میں ودیعت؟
شفق کا نظارہ سویرے سویرے
جھلک کس حسیں کی ہے، کیسی عبارت؟
گریز
میں اس ذاتِ اقدس کا واصف ہوں، جس کا
تصرف زمیں پر، فلک پر حکومت
مدح
ہے الحمدللہ! خدا کی عنایت
میسر نبیﷺ اور اس کی شریعت
یہ لوح و قلم، یہ فصاحت، بلاغت
ہوئے بہرِ حمد و ثناء ہیں عنایت
نہیں کوئی تیرے سوا دو جہاں میں
ہو جس کی مسلسل دلوں پر حکومت
یہ تاروں بھری رات کی جھلملاہٹ
نظامِ کواکب سے شب کی صباحت
یہ بادِ صبا اور یہ بحرِ تموّج
زمیں، آسماں پر تِری بادشاہت
یہ علم و قلم اور زبان و بیاں بھی
ہوئے حمد کے واسطے ہی عنایت
تِری قدرتِ کاملہ نے جڑے ہیں
نگینے چمک دار اور یہ بصارت
یہ گرمی، یہ سردی، کہیں دھوپ چھاؤں
یہ شمس و قمر کی الگ سی حرارت
شواہد وجودِ خدا کے عیاں ہیں
نظامِ جہاں پر ہے اس کی حکومت
زمیں میں چھپائے ہیں تُو نے خزانے
پہاڑوں سے جاری ہے ان کی حفاظت
صفاتِ خدا میں نہیں ہے تعطّل
نظامِ خدا میں نہیں ہے نحافت
رواں تازگی کی غرض سے ہے پانی
یہ حکمت تری ہے، اصُولِ سباحت
یہ کس زور سے آ رہی ہے صدا اک
مقرر ہے کیسا، ہے کیسی خطابت
سمندر گرج دار تہلیل کر کے
یہ توحید کی دے رہے ہیں شہادت
رواں آب شاروں کے شیریں ترنم
تِری عظمتوں کی ہیں کرتے سفارت
ہزاروں وسیلوں سے تو رزق دے کر
مری ہر طرح کر رہا ہے کفالت
غزل
تِری آرزو میں بپا ہے قیامت
جھلک اک تِری ہو یہی ہے سعادت
تِرا ذکر ہو اور میری نگارش
رہے عشق کو حسن سے یوں اضافت
نیا رُوپ ہر صبح ہر شام تیرا
نکھرتی، سنورتی، مہکتی صباحت
نئی ہر گھڑی شان جلوہ فگن ہے
تِرے ہی یہ لائق ہے جاہ و جلالت
مطلعِ ثانی
الہٰی میسر کسی کو صباحت
مقدر میں رکھی کسی کے ملاحت
فقط جس کو محبوب ہو حمدِ باری
اسے فکر کیسی؟ ہو کیوں کر ندامت
تِرا نام جاری ہوا جب زباں پر
مکمل مِری ہو گئی ہر عبادت
عجب داستاں زندگی کی ہے مولا
عدم سے قضا تک مسلسل مسافت
کہیں تیرگی ہے، کہیں روشنی ہے
اسی میں فراغت، اسی میں معیشت
اندھیرا اُجالا، کہیں دھوپ چھاؤں
ہے کرتے تِری حکمتوں کی صراحت
دعا
الٰہی یہ شوقِ قصیدہ نگاری
مِرے واسطے حشر کی ہو بضاعت
ہو سبحان والحمد سے ذکر تیرا
ہو میری زباں پر بھی جاری تلاوت
عطا دو جہاں میں مجھے آبرو ہو
تِرے ذکر پہ ہی کروں میں قناعت
خزانے تِری قدرتوں کے فزوں تر
یہ سیراب اسلام کی ہو فلاحت
خدایا! سلامت رہے دو جہاں میں
نبیؐ کی اطاعت، خدا کی محبت
مِرے اقرباء کی ہو بخشش مکمل
خدایا! ملے آخرت میں نجابت
خدایا! میسّر رہے تندرستی
نہ ہی روح کی ہو، نہ بدنی علالت
تمنا ہے ایسا قصیدہ سناؤں
سخن داد پائے بروزِ قیامت
عباس علی شاہ ثاقب
No comments:
Post a Comment