بدلی ہوئی دنیا کی نظر دیکھ رہے ہیں
پھلتا ہوا نفرت کا شجر دیکھ رہے ہیں
بستی کے سُلگتے ہوئے گھر دیکھ رہے ہیں
دل دوز مناظر ہیں، مگر دیکھ رہے ہیں
وہ کر بھی چُکے غیر سے اقرارِ محبت
ہم بیٹھے دُعاؤں میں اثر دیکھ رہے ہیں
ہوتی ہے ہر اک پُھول سے گُلزار کی زینت
نادان ہیں جو نسلِ شجر دیکھ رہے ہیں
اک روز نہ جل جائے کہیں ان کا نشیمن
جو دُور کھڑے رقصِ شرر دیکھ رہے ہیں
منزل کی جنہیں دُھن تھی انہیں مِل گئی منزل
جو بیٹھ رہے، گردِ سفر دیکھ رہے ہیں
افشاں مِری آنکھوں میں بسی رہتی ہے ہر دم
وہ شکل جِسے اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں
ارجمند بانو افشاں
No comments:
Post a Comment