سِتم تو کرتا ہے لیکن دُعا بھی دیتا ہے
مِرا حریف مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
ہے جس کا ایک تبسّم قرارِ جاں اپنا
اسی کا طرزِ تغافل رُلا بھی دیتا ہے
بجا کہ ہِجر کا عالم عذاب ہے یارو
مگر یہ عرصۂ فُرقت مزا بھی دیتا ہے
ہے دل نواز غضب کا مگر یہ شعلۂ عشق
کبھی شگوفۂ دل کو جلا بھی دیتا ہے
کبھی ہے موت میں پنہاں نِجات کا پہلو
کبھی وہ زیست کی صُورت سزا بھی دیتا ہے
سجاد سید
No comments:
Post a Comment