لبِ ساحل ہیں یا گرداب میں ہیں
بہت موسم ہے ہم اک خواب میں ہیں
فصیلوں پر صدائیں اگ رہی ہیں
زبانیں گمشدہ محراب میں ہیں
یہی لمحہ ہے، مجھ کو فتح کر لو
مِرے سارے سپاہی خواب میں ہیں
میں ان میں اپنا موسم دیکھتا ہوں
یہ جتنے آئینے تالاب میں ہیں
مِری منزل جزیرہ ہے وفا کا
سبھی رستے مِرے سیلاب میں ہیں
ڈاکٹر ناہید شاہد
No comments:
Post a Comment